the etemaad urdu daily news
آیت شریف حدیث شریف وقت نماز
etemaad live tv watch now

ای پیپر

انگلش ویکلی

To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com

اوپینین پول

کیا آپ کو لگتا ہے کہ دیویندر فڑنویس مہاراشٹر کے اگلے وزیر اعلیٰ ہوں گے؟

جی ہاں
نہیں
کہہ نہیں سکتے


(ایجنسیز)
 سال 2013ء رخصت ہوا اور حسب سابق فلسطینیوں کے دکھ، مسائل اور آلام ومصائب کی داستان غم کا ایک اور باب تمام ہوا۔ اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی اور یہودیوں کی غنڈہ گردی کے نتیجے میں فلسطینیوں کی زندگی اجیرن بنی رہی۔ اس باب  میں ہرشعبہ اپنی تفصیلات کے لیے ایک کتاب کا متقاضی ہے۔ لیکن اس رپورٹ میں مرکزاطلاعات فلسطین کی ماہرین کی آراء کی روشنی میں فلسطینی معیشت کے حوالے سے کچھ اعدادو شمار جاری کیے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سنہ 2013ء فلسطینی معیشت کے اعتبار سے بدترین سال تھا۔

فلسطینی اتھارٹی تین ارب ڈالرکی مقروض

فلسطینی دانشور اور ماہر معیشت ماہر الطباع نے "مرکزاطلاعات فلسطین" سےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ برس فلسطین میں مالیاتی بحران گردن توڑ بخار کی طرح فلسطینیوں پر مسلط رہا ہے۔ معاشی مسائل کا سامنا صرف غزہ کے محصور شہریوں کو درپیش نہیں تھے بلکہ فلسطینی اتھارٹی کے زیرانتظام مغربی کنارے کی حالت بھی کچھ ما سوا نہیں تھی۔ فلسطینی اتھارٹی بھی بیرون امداد کی بیساکھیوں پر چلتی رہی۔ گذشتہ برس رام اللہ انتظامیہ کو بیرون ملک سے 1 ارب 60 کروڑ ڈالر کی امداد ملی، 500 ملین ڈالر کی امداد کی مزید امید کی جا رہی تھی لیکن وہ فی الحال نہیں مل سکی ہے۔ ڈونرممالک نے فلسطینیوں سے امداد کے حوالے سے اپنے وعدے پورے نہیں کیے ہیں ،س جس کے نتیجے میں فلسطینی  اتھارٹی تین ارب ڈالر کی مقروض ہوچکی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ماہر الطباع کا کہنا تھا کہ سال 2013ء کے اختتام تک فلسطینی اتھارٹی کو 550 ملین ڈالر کے بجٹ خسارے کا سامنا تھا۔ سنہ 2010ء میں فلسطینی اتھارٹی کا اندرونی اور بیرونی قرضہ دو ارب 30 کروڑ ڈالر تھا جو کہ 2013ء کے وسط تک چار ارب 30 کروڑ ڈالر تک جا پہنچا، لیکن کچھ بیرونی امداد ملنے کے بعد اس میں کمی آئی تھی جس کے بعد تین ارب سے زیادہ کا مقامی اور بیرونی قرض پھربھی فلسطینی اتھارٹی کے کندھوں پر ہے۔ یوں تین سال کے عرصے میں فلسطینی اتھارٹی کے اندرونی اور بیرونی قرضوں میں 38 فی صد اضافہ ہوا ہے۔

صورتحال بے قابوہونے کا اندیشہ

ممتاز معیشت دان  اور غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں اکنامکس کے استاد پروفیسر ڈاکٹر محمد مقداد نے مرکزاطلاعات فلسطین سے گفتگو کرتےہوئے کہا کہ مالیاتی اور معاشی بحران کے نتیجے میں حالات حکومت کے کنٹرول سے باہر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت فلسطینی اتھارٹی صرف بیرونی مدد پر چل رہی ہے۔ باہر سے امداد کا ملنا بتدریج کم ہو رہا ہے۔ ایسے لگ رہا ہے کہ بیرونی امداد اور قرضے  ملنا بند ہونے والے ہیں، جس کے بعد



فلسطینیوں کا غم وغصہ آتش فشاں بن کر پھٹ سکتا ہے۔

ڈاکٹر مقداد کا کہنا تھا کہ غزہ کی پٹی میں حکومت کی کارکردگی نسبتا بہتر رہی ہے لیکن یہاں کے مسائل کی نوعیت مغربی کنارے میں الفتح کی حکومت کے مسائل سے مختلف ہیں۔ یہاں شہر کی چاروں اطراف سے ناکہ بندی کو آٹھ سال ہو رہے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی نے بھی اہالیان غزہ سے سوتیلے بچوں جیسا سلوک کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں شہرکی معیشت کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کی اس پالیسی کے نتیجے میں فلسطینی عوام میں انتشار اور سیاسی جماعتوں کے مابین بے اتفاقی کی خلیج مزید گہری ہوئی ہے۔

انقلاب مصرکے اثرات

فلسطینی معیشت دان معین رجب نے 2013ء کی فلسطینی معیشت سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ برس کا آغازمیں غزہ کی پٹی میں معیشت  بہتر سمت میں جا رہی تھی۔ کچھ ایسے اعدادو شمار سامنے آنے لگے تھے جن سے اندازہ ہو رہا تھا کہ فلسطینیوں بالخصوص غزہ کے مفلوک الحال عوام کا معیار زندگی قدرے بہتر ہونے لگا ہے اور جنگ سے تباہ حال شہرمیں زندگی ایک با پھر مسکرانے لگی ہے۔

لیکن فلسطینی اتھارٹی کی عیاشیوں نے غزہ کے عوام کے لیے کچھ باقی چھوڑا ہی نہیں ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے شروع میں خوب عیاشیاں کیں اور غزہ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور جنگ زدہ شہر کے ترقیاتی منصوبوں کی رقوم کو اللے تللوں پر اڑایا، اس کے نتیجے میں سال کے آخر میں خود فلسطینی اتھارٹی کو 30 سے 35 فی صد بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ بے روزگاری کی شرح میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا۔ بیرونی سطح سے قرضوں  اور امداد کی عدم وصولی کے نتیجے میں مقامی قرضوں اور ان پر شرح سود میں غیرمعمولی اضافے نے فلسطینیوں کے جسم سے ان کی کھال بھی ادھیڑ دی۔

فلسطینی دانشورکا کہنا  تھا کہ عرب بہاریہ کے نتیجے میں سال 2013ء کے دوسرے اور آخری وسط میں ڈرامائی تبدیلی آئی۔ خاص طورپر مصرمیں آنے والی تبدیلی کے نتیجے میں غزہ کی پٹی کے عوام کو سنگین مشکلات سےدوچار کیا ہے۔

مصری حکومت نے فوج کی مدد سے غزہ کے شہریوں کی خوراک کا ذریعہ بننے والی سرنگیں تباہ کرنا شروع کردیں۔ زمینی راستے بند کردیے گئے۔ حتی کہ غزہ کی پٹی کو ایندھن، غذائی اجناس اور تعمیراتی میٹریل کی فراہم بھی معطل ہوگئی۔

مصر کے سابق صدر داکٹر محمد مرسی کی معزولی کے بعد حالات مزید ابتر ہوئے۔ فلسطینیوں کی جانب سے مصری حکومت سے امداد کی اپیلیں بھی بے اثر ثابت ہوئیں۔ مصرکی نئی عبوری حکومت نے فلسطینی تنظیم حماس کے ساتھ معاندانہ پالیسی روا رکھی ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں غزہ کی پٹی میں شہریوں کے معاشی مسائل مزید دو چند ہوگئے ہیں۔

اس پوسٹ کے لئے کوئی تبصرہ نہیں ہے.
تبصرہ کیجئے
نام:
ای میل:
تبصرہ:
بتایا گیا کوڈ داخل کرے:


Can't read the image? click here to refresh
http://st-josephs.in/
https://www.owaisihospital.com/
https://www.darussalambank.com

موسم کا حال

حیدرآباد

etemaad rishtey - a muslim matrimony
© 2024 Etemaad Urdu Daily, All Rights Reserved.